السلام علیکم ! قارئین کرام امید کرتے ہیں کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔آج کا موضوع سود سے متعلق ہے جس نے ہمارے ملک کی عوام کا جینا دوبھرکررکھاہے ۔سودی نظام کی بدولت غریب طبقہ خاص طورپر غربت کی مزید لکیر کے نیچے جارہاہے ۔سودایک لعنت ہے جوبرباد کردیتاہے ۔
کچھ عرصہ سے جمعتہ المبارک کے خطبات میں قرآن کریم کے حوالہ سے مختلف پہلوؤں پر بات چل رہی ہے ،گزشتہ جمعہ اس پہلو پر گفتگوہوئی تھی کہ قرآن کریم اور جناب نبی کریم ﷺ نے بہت سے کاموں کے کرنے کاحکم دیاہے اور بہت سی باتوں اورکاموں سے منع کیاہےجنہیں اوامر اورنواہی کہاجاتاہے(امربالمعروف و نہی عن المنکر ) کہاجاتاہے ۔ان کے بارے میں کچھ حلقوں کی طر ف سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر پیدارکرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی حیثیت آرڈر اورحکم کی نہیں بلکہ رہنمائی اورمشورہ کی ہے ۔اس کاذکر حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے حجتہ اللہ البالغہ میں کیاہے اورآج بھی یہ بات اسی انداز میں سامنے لائی جارہی ہے۔اس پر یہ عرض کیاتھاکہ قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کے احکام آپشنز نہیں بلکہ آرڈر ز ہیں اور ان پر عمل کے بارے میں قیامت کے دن ہرشخص جواب دہ ہوگا اور اس پر سزاوجز ا کامدارہوگا۔
آج کی گفتگو اس حوالے سے ہوگی کہ قرآن کریم نے بہت سے کاموں سے منع کیاہے مگر ان میں سے امورپر سخت لہجہ اختیارکیاہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے کاموں سے بہرحال بچناضروری ہے ۔ان میں س ایک کام سودکالین دین بھی ہے اور اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایاہے کہ ان کنتم مومنین " (اگرتم مسلمان ہوتو سودکالین دین ترک کردو اورمنع کے باوجود سودی کاروبار کوجاری رکھنے کو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جنگ سے تعبیرکیاہے۔جس سے اس کبیرہ گناہ کی سنگینی کا انداز ہ کیاجاسکتاہے۔
سود کالین دین پہلی امتوں میں بھی حرام تھابلکہ قرآن کریم نے بنی اسرائیل پر خدا کی لعنت کے اسباب میں ذکرکیاہے کہ "واخذھم الربواوقد نہوا عنہ" انہیں سود سے منع کیاگیاتھا مگر اس کے باوجود وہ سود کے لین دین کرتے تھے جس پر لعناھم (ہم نے ان پر لعنت مسلط کردی)۔یہود کے لئے سودحرام ہونے کاتذکرہ آج کی بائبل میں بھی موجودہے۔جناب نبی اکرمﷺ جب معبوث ہوئے تو عرب معاشرہ میں سود کالین دین عام تھا جوذاتی قرضوں میں بھی تھا اورتجارت میں تھا،نبی اکرم ﷺ نے سود کی ساری قسموں کو ممنوع قراردے دیااورعملاًبھی ختم کیا،اس موقع پر یہ سوال اٹھایاگیا جس کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح ہے کہ "انماالبیع مثل الربوا"تجارت بھی تو سود کی طرح ہے کہ اشیاء کا تبادلہ تجارت ہے جس پر منافع جائز ہے ،تو رقوم کا تبادلہ بھی اسی طرح ہے اس پر منافع میں کیاحرج ہے ؟
اللہ نے قران کریم میں اس کا واضح جواب دیاکہ واحل اللہ البیع وحرم الربوا" یہ دونوں مختلف معاملات ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلا ل کیاہے اور سود کو حرام قراردیاہے ۔چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے سود کے مکمل خاتمہ کا اعلان فرمایا بلکہ حجتہ الوداع کے موقع پر اس کے عملی آغاز کے لئے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو سودکاکاروبار کیاکرتے تھے اپنے ساتھ کھڑاکرکے سب صحابہ کرام کے سامنے اعلان کیاکہ انہوں نے لوگوں کو جوسود پر قرضے دے رکھے ہیں ان میں اصل رقم واپس ہوگی اورسود کی رقم کی ادائیگی نہیں کی جائیگی۔ گویا نبی کریم ﷺ نے سود کی حرمت کے اعلان سے قبل دئیے گئے قرضوں پر بھی سود ختم کرنے کا اعلان فرمایا ۔سیرت طیبہ کی کتابوںمیں طائف کے قبیلہ بنوثقیف کے قبول اسلام تفصیل پڑھی جاسکتی ہے۔ بلکہ میرا مشورہ یہ ہے کہ اصحابِ ذوق اس کا ضرور مطالعہ کریں ۔ جس میں بتایاگیاہے بنوثقیف کاوفد اپنی قوم کی طرف سے نبی اکرم کی خدمت میں قبول اسلام کرنے کے لئے مدینہ منورہ آیا تو انہوں نے قبول اسلام کے لئے کچھ شرائط پیش کیں ۔جن میں ایک یہ تھی کہ چونکہ دوسری قوموں اورقبائل کے ساتھ ان کی تجارت سودکے ذریعے ہوتی ہے اس لئے وہ سودنہیں چھوڑ سکیں گے ۔
اسی طرح انہوں نے کہاکہ وہ نماز کے اوقات کی پابندی نہیں کرسکیں گے ۔ان کا بت لات نہیں توڑا جائیگا ۔ان کے علاقہ میں انگور کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے جس سے شراب بنتی ہے اور اس پر ان کی معیشت کا مدارہے ۔اس لئے شراب ترک کرنابھی ان کے لئے مشکل ہوگا وغیرہ وغیرہ ۔مگر نبی اکرم ﷺ نے سود والی شرط سمیت تمام شرائط مستردفرمادیں اوربنوثقیف کو اپنی شرائط سے دستبردار ہوکر غیر مشروط طور پر مکمل اسلام قبول کرناپڑا۔
میں عرض کیاکرتاہوں کہ بنوثقیف کی شرائط کو مسترد کرکے جناب رسول اللہ ﷺ نے انہیں غیر مشروط طور پر تمام احکام اسلام قبول کرنے کے لئے کہاتوانہوں نے صرف ایک رات میں باہمی مشورہ کرکے ان شرائط سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کرلیا۔مگر ہماری صورتحال یہ ہے قیام پاکستان کے بعد بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح مرحوم نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے اپنے خطاب میں واضح طور پر کہاتھاکہ ہم اپنی معیشت کی بنیاد مغرب کے اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات و احکام پر رکھیں گے ۔جبکہ دستور پاکستان میں سود کو اسلام کے منافی قرار دیتے ہوئے کہاگیاہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کم از کم مدت میں ملک سے سودی نظام کاخاتمہ کرے ۔اس کے بعد وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی دوٹوک فیصلہ دیا کہ ملک میں رائج تمام سودی قوانین قرآن و سنت سے متصادم ہیں ۔اس لئے انہیں یکسر ختم کردیا جائے ،مگر ہم قومی سطح پر ابھی تک تذبذب کاشکارہیں اورٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں جو یقیناً اللہ تعالیٰ اور رسول خداﷺ کی ناراضگی کاسبب ہے ۔حتی کہ اس سودی نظام کی نحوست کی بدولت ہم اسٹیٹ بینک آف پاکستان پر آئی ایم ایف کا کنٹرول تسلیم کرکے اپنی قومی خودمختاری کو بھی داؤ پر لگاچکے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اورہمیں توبہ و استغفار کی توفیق دیتے ہوئے قرآن وسنت کی عملداری کی طرف واپس جانے کی توفیق سے نوازیں ۔آمین یارب العالمین!
کالم نگار مولانا زاہدالراشدی(نوائے محراب)
Thanks for inconvenience,
Fell free ask to us.